sultan bahu video

First Free Web Which Provide All and Every Thing about Hazrat Sultan Bahu ®


         Free US$

sultan bahoo

هرکه طا لب حق بود من حاضرم     ز ابتدا تا انتها يک د م برم    طا لب بيا طا لب بيا طا لب بيا    تار سانم روز اول با خدا

hazrat sultan bahu books
abyat e bahoo برہانالواسلین  شہبازلا مکاں  سلطان العارفین  سلطان الفقر مرشد حق   سخی سلطان   شہنشاہ   مرشد نورالہدی   حق با ہو   قدس سرہ العزیز
abyat e bahu شہنشاہ دوجہان  محبوب رب العالمین  احمد مجتبی  نوراللہ  محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام     سروری قادری سلسلہ محبوب سبحانی حضور غوث اعظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کا اصل سلسلہ طریقت ہے
sultan bahu poetry
sufiana kalam
kalam e bahoo
kalam bahoo
haq bahoo kalam
sakhi sultan

سلطان باہو کی تاریخ اردو میں

سلطان باہو کی تاریخ اردو میں

سلطان باہو کی تاریخ

پیدائش اور ابتدائی زندگی

سلطان باہو 17 جنوری 1630ء کو مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بازید محمد ایک پیشہ ور سپاہی تھے جو شاہجہان کی فوج میں ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ ان کی والدہ بی بی راستی ایک کامل عارفہ تھیں اور اپنے خاندان میں ایک پاکیزہ اور پارسا عورت کے طور پر معروف تھیں۔ سلطان باہو کا نام ان کی والدہ نے دیا تھا تاکہ ان کا نام ہمیشہ "ہو" کے ساتھ جڑ جائے۔

تعلیمات اور شاعری

سلطان باہو نے ظاہری علم حاصل نہیں کیا لیکن پھر بھی انہوں نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی تمام کتب علمِ لدّنی کا شاہکار ہیں۔ ان کا کلام عوم کے دلوں، ذہنوں اور زبانوں پر ہے۔ سلطان باہو پنجابی زبان کے عظیم شاعر مانے جاتے ہیں اور ان کی لکھی ہوئی پنجابی کافیاں آج بھی پڑھنے والوں کا دل موہ لیتی ہیں۔

روحانی مقام

سلطان باہو کو سلطان الفقر پنجم کا مرتبہ حاصل تھا۔ انہیں وہ خاص روحانی قوت حاصل تھی کہ وہ قبر میں بھی زندوں کی طرح تصرف فرماتے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیمات میں دنیا کی بے ثباتی کا موضوع بڑی شدت سے بیان کیا ہے۔

وفات اور مزار

سلطان باہو کا وصال 1 مارچ 1691ء کو ہوا۔ ان کا مزار گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ، پاکستان میں واقع ہے۔ ان کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔ ان کے مزار پر لاکھوں عقیدت مند ہر سال حاضری دیتے ہیں۔

سلسلہ سروری قادری

سلطان باہو نے سروری قادری سلسے کی بنیاد رکھی۔ ان کی تعلیمات میں مرشدِ کامل کی زیرِ نگرانی ذکر و تصور اسمِ ذات کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذکر و تصورِ اسمِ ذات قلب (باطن) کی کلید ہے جس کے ذریعے تزکیہ نفس اور تجلیۂ روح کے بعد طالبِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری کے اعلیٰ ترین مقامات عطا ہوتے ہیں

سلطان باہو کی شاعری کا خاصہ کیا ہے

سلطان باہو کی شاعری کا خاصہ ان کی منفرد انداز اور تصوف کی گہرائیوں کو بیان کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ ان کی شاعری میں چند اہم خصوصیات شامل ہیں:

ردیف "ھو" کا استعمال: سلطان باہو کی شاعری میں "ھو" کی ردیف کا خاص مقام ہے۔ یہ ردیف ان کی شاعری کی ایک منفرد خصوصیت ہے جو ان کے کلام کو ایک روحانی اور عرفانی رنگ دیتی ہے۔ "ھو" کا استعمال ان کی شاعری میں ایک تازیانہ کی طرح ہے جو فکر کو دنیا سے عقبیٰ کی طرف لے جاتا ہے.

پنجابی زبان کا انتخاب: سلطان باہو نے اپنے وقت میں فارسی کو درباری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بھی پنجابی زبان کو اپنایا۔ انہوں نے عام عوام کی زبان میں اپنی تعلیمات کو پہنچانے کے لیے پنجابی کو ترجیح دی۔ یہ ان کی شاعری کو عوام الناس کے قریب لے کر آیا.

تصوف اور وحدت الوجود: ان کی شاعری میں تصوف اور وحدت الوجود کے فلسفے کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ اللہ کی ذات کی موجودگی اور باقی تمام اشیاء کی غیر موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی تفریق کی نفی بھی شامل ہے، جیسا کہ ان کے کلام میں "نہ میں ہندو نہ میں مسلم" کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے.

موسیقیت اور تاثر: سلطان باہو کی شاعری میں ایک خاص موسیقیت اور تاثر ہے جو سننے والوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ ان کے ابیات کو پڑھنے یا سننے سے لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں اثر پڑتا ہے اور ان کے کلام کی تشریح کرنا مشکل ہوتا ہے.

سلطان باہو کی لکھی ہوئی کتابیں کیا ہیں

سلطان باہو نے اپنے دور میں تقریباً 140 سے زائد کتب تصنیف کیں، جن میں سے کچھ اہم کتابیں درج ذیل ہیں:

عین الفقر: یہ ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے جو تصوف کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اس میں وہ تصوف کی گہرائیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہیں.

ابیاتِ باہو: یہ ان کی مادری زبان پنجابی میں لکھی گئی ایک منظوم کتاب ہے جو ان کی زندگی کی ریاضت اور عارفانہ کلام پر مشتمل ہے.

اسرار قادری، امیرالکونین، اورنگ شاہی، توفیق الہدایت، شیخ برہنہ، جامع الاسرار، حجب الاسرار، دیدار بخش، دیوانِ باہو، رسالہ رومی، سلطان الوہم، شمس العارفین، عقل بیدار، عین العارفین، فضل القا، قرب دیدار، کشف الاسرار، کلید التوحید صغیر، کلید التوحید کبیر، کلید جنت، گنج الاسرار، محک الفقر، محک الفقرا صغیر، محک الفقرا کبیر، مفتاح العارفین، نورالہدیٰ صغیر، نورالہدیٰ کبیر: یہ تمام کتب فارسی زبان میں تصنیف کی گئی ہیں اور تصوف اور روحانیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں.

سلطان باہو کی کتب میں تصوف کے مسائل کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے، لیکن ان کی تمام باتوں کی دلیل قرآن و سنت سے دی گئی ہے.

سلطان باہو کا مزار کہاں واقع ہے

سلطان باہو کا مزار پاکستان کے ضلع جھنگ میں واقع ہے۔ یہ مزار گاؤں سلطان باہو میں واقع ہے، جو قصبہ گڑھ مہاراجہ کے قریب تحصیل احمدپور سیال میں واقع ہے۔ اس مزار کا مکمل پتہ یہ ہے:

گاؤں سلطان باہو، گڑھ مہاراجہ کے راستے، تحصیل احمدپور سیال، ضلع جھنگ، پاکستان۔

سلطان باہو کا مزار پہلے قلعہ قہرگان میں تھا جو دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقع تھا۔ بعد میں دریا کی تبدیلی کی وجہ سے مزار کو دو بار منتقل کیا گیا۔ موجودہ مزار کی تعمیر 1918ء میں ہوئی تھی اور یہ آج بھی عقیدت مندوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

سلطان باہو کی تعلیمات میں کیا خصوصیات ہیں

سلطان باہو کی تعلیمات میں چند اہم خصوصیات شامل ہیں:

فقر کی تعلیم: سلطان باہو نے اپنی تعلیمات کو "فقر" کا نام دیا ہے، جو تصوف اور طریقت سے مختلف ہے۔ ان کا زور مرشدِ کامل کی راہنمائی پر ہے جو طالب کو اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور سکھاتا ہے.

اخلاص اور استقامت: ان کی تعلیمات میں اخلاص اور استقامت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن سے طالبِ مولیٰ کو دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی کی حضوری نصیب ہوتی ہے.

اخلاق اور آداب: سلطان باہو نے اخلاقیات اور آداب پر بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک سچائی، محبت، برداشت، اور امن کا خاص مقام ہے۔ انہوں نے معاشرے میں فرقہ واریت کو کم کرنے کی کوشش کی.

علم باطن: ان کی تعلیمات میں علم باطن کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ان کے نزدیک محض ظاہری علم کافی نہیں ہے بلکہ روحانی علم بھی ضروری ہے جو انسان کی روح کو بیدار کرتا ہے.

مورال ڈویلپمنٹ: سلطان باہو نے شاگردوں میں اخلاقیات کی ترقی پر بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک شاگرد میں ایمان، سچائی، خود اعتمادی، امانت، محبت، اور خواہش جیسی خصوصیات ہونی چاہیئں.

سلطان باہو نے کس طرح صوفی سلسلہ سروری قادری کی نینہہ رکھی

سلطان باہو نے صوفی سلسلہ سروری قادری کی بنیاد اس طرح رکھی کہ انہوں نے قادری سلسلے کو دو شاخوں میں تقسیم کیا: زاہدی قادری اور سروری قادری۔ ان کا سروری قادری سلسلہ تصوف کے ایک منفرد اور آسان راستے کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں طالب کو روحانی ترقی کے لیے سخت ریاضت یا جسمانی مشقت سے نہیں گزرنا پڑتا۔ اس سلسلے کی خصوصیات اور بنیاد کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

 روحانی آغاز

سلطان باہو نے اپنی روحانی تربیت کا آغاز براہِ راست حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد ﷺ کی روحانی مجلس سے کیا۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں گھوڑے پر بٹھا کر نبی کریم ﷺ کی مجلس میں لے جایا، جہاں انہیں بیعت دی گئی۔ بعد ازاں، انہیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیا گیا، جنہوں نے انہیں روحانی علوم سے نوازا۔ یہیں سے سلسلے کا نام سروری (نبی کریم ﷺ کی قیادت) اور قادری (شیخ عبدالقادر جیلانی سے نسبت) اخذ ہوا۔

بیعت اور مرشد کامل

اگرچہ سلطان باہو پیدائشی ولی تھے، لیکن انہوں نے تصوف کی روایات کے مطابق ظاہری بیعت حضرت سید پیر عبد الرحمن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر کی۔ یہ بیعت ان کے لیے ظاہری اور باطنی روحانی خزانے تک رسائی کا ذریعہ بنی۔

 سروری قادری سلسلے کی خصوصیات

اس سلسلے میں طالب کو پہلے دن ہی اسمِ اعظم (اللہ کا ذاتی نام) عطا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر غور و فکر کرے اور اپنی روح کو پاک کرے۔

اس میں سخت جسمانی مشقت، چلہ کشی یا ورد و وظائف پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ شریعت پر عمل اور معرفتِ ذات (اللہ کی پہچان) کو ترجیح دی جاتی ہے۔

یہ سلسلہ طالب کو نبی کریم ﷺ کی مجلس میں فوری طور پر پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو مرشد کامل کی توجہ سے ممکن ہوتا ہے۔

زاہدی قادری سے فرق

زاہدی قادری سلسلے میں سخت ریاضت اور جسمانی عبادات پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ سروری قادری سلسلہ آسان اور براہِ راست معرفتِ الٰہی کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ سلطان باہو نے سروری قادری سلسلے کو حقیقی قادری سلسلہ قرار دیا کیونکہ یہ روحانیت اور معرفت پر مبنی تھا۔

 تعلیمات کی ترویج

سلطان باہو نے سروری قادری سلسلے کو برصغیر میں عام کیا اور اپنی کتب کے ذریعے اس کے اصول و ضوابط کو واضح کیا۔ ان کی تعلیمات نے اس سلسلے کو ایک منفرد شناخت دی جو آج بھی جاری ہے۔

نتیجہ

سروری قادری سلسلہ سلطان باہو کی روحانی بصیرت اور معرفت کا عکاس ہے، جو طالب کو بغیر کسی مشکل کے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی ان کے پیروکاروں کے ذریعے جاری و ساری ہے۔

 


blogger counters river-insurance
river-insurance
river-insurance
river-insurance

Chat

حضرت سلطان باہوؒ  سلسلہ میں بعت حاصل کریں
حضرت سلطان باہوؒ  سلسلہ میں بعت حاصل کریں