sultan bahu video

First Free Web Which Provide All and Every Thing about Hazrat Sultan Bahu ®


         Free US$

sultan bahoo

هرکه طا لب حق بود من حاضرم     ز ابتدا تا انتها يک د م برم    طا لب بيا طا لب بيا طا لب بيا    تار سانم روز اول با خدا

hazrat sultan bahu books
abyat e bahoo برہانالواسلین  شہبازلا مکاں  سلطان العارفین  سلطان الفقر مرشد حق   سخی سلطان   شہنشاہ   مرشد نورالہدی   حق با ہو   قدس سرہ العزیز
abyat e bahu شہنشاہ دوجہان  محبوب رب العالمین  احمد مجتبی  نوراللہ  محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام     سروری قادری سلسلہ محبوب سبحانی حضور غوث اعظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کا اصل سلسلہ طریقت ہے
sultan bahu poetry
sufiana kalam
kalam e bahoo
kalam bahoo
haq bahoo kalam
sakhi sultan

حق باہو سلطان کی تاریخ اردو میں

حق باہو سلطان کی تاریخ اردو میں

حق باہو سلطان کی تاریخ اردو میں

haq bahoo sultan history in urdu

سلطان باہو کی تاریخ اور سیرت

حضرت سلطان باہو (1630–1691) برصغیر کے مشہور صوفی شاعر، عالم، اور ولی تھے۔ آپ کا تعلق قادری سلسلے سے تھا اور آپ نے صوفی روایت "سروری قادری" کی بنیاد رکھی۔ آپ کا لقب "سلطان العارفین" تھا، جس کا مطلب ہے "اللہ کے جاننے والوں کے سلطان"۔ آپ کی پیدائش 17 جنوری 1630 کو شورکوٹ، ضلع جھنگ (موجودہ پاکستان) میں ہوئی اور وفات 1 مارچ 1691 کو ہوئی۔

ابتدائی زندگی

حضرت سلطان باہو کے والد، بیازید محمد، مغل فوج میں افسر تھے اور والدہ، بی بی راستی، ایک نیک خاتون تھیں جنہوں نے ابتدائی روحانی تربیت فراہم کی۔ آپ بچپن ہی سے روحانی وارداتوں میں مستغرق رہتے تھے اور اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں مشغول رہے۔

صوفی تعلیمات

آپ نے اپنی زندگی میں "فقر" یعنی اللہ کی ذات کی معرفت کو عام کیا۔ آپ نے "اسمِ اللہ ذات" کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا آسان راستہ پیش کیا۔ آپ نے 140 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن میں اسلامی تصوف اور روحانیت کے مختلف پہلو شامل ہیں۔ ان کتابوں میں فارسی زبان استعمال کی گئی جبکہ پنجابی شاعری نے آپ کو عوام میں مقبولیت دلائی۔

شاعری اور کلام

آپ کا پنجابی کلام "ابیاتِ باہو" آج بھی صوفی موسیقی میں گایا جاتا ہے۔ یہ کلام اللہ کی وحدانیت اور روحانی ترقی پر زور دیتا ہے۔ اس کلام کو مختلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے قوالی اور کافی۔

کرامات

حضرت سلطان باہو کی کرامات مشہور ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ غیر مسلم آپ کا چہرہ دیکھتے ہی اسلام قبول کر لیتے تھے۔ آپ کو پتھر کو سونے میں تبدیل کرنے کی قدرت بھی حاصل تھی۔

دربار سلطان باہو

آپ کا مزار گڑھ مہاراجہ، ضلع جھنگ، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ مزار لوگوں کے لیے روحانی فیض حاصل کرنے کا مرکز ہے جہاں ہر سال آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔

حضرت سلطان باہو کی تعلیمات آج بھی لوگوں کو روحانی ترقی اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

سلطان باہو کا کلام کس تارہ سے مقبول ہے

Sultan Bahoo ki kalam kis tarah se popular hai

حضرت سلطان باہو کا کلام اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ ان کی شاعری کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر شہرت حاصل ہوئی:

 پنجابی زبان میں کلام

حضرت سلطان باہو نے زیادہ تر شاعری پنجابی زبان میں کی، جو اس وقت عوامی زبان تھی۔ ان کے کلام نے عام لوگوں کے دلوں کو چھوا اور انہیں روحانی تعلیمات کے قریب کیا۔

صوفیانہ موسیقی میں گائیکی

ان کے اشعار کو صوفی موسیقی کی مختلف اصناف جیسے قوالی اور کافی میں گایا جاتا ہے۔ ان کے کلام کو گانے کا ایک مخصوص انداز بھی رائج ہوا، جو آج تک جاری ہے۔

روحانی پیغام

ان کے کلام میں اللہ کی وحدانیت، عشق حقیقی، اور روحانی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ یہ پیغام لوگوں کو اللہ سے قربت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو ان کے کلام کو خاص بناتا ہے۔

عوامی مقبولیت

ان کا کلام نہ صرف بزرگوں بلکہ نوجوان نسل میں بھی مقبول ہے۔ یوٹیوب اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر ان کے کلام کے بے شمار مجموعے دستیاب ہیں، جنہیں دنیا بھر میں سنا اور پسند کیا جاتا ہے۔

حضرت سلطان باہو کا کلام آج بھی صوفی روایت کا ایک اہم حصہ ہے اور لوگوں کو روحانی سکون فراہم کرتا ہے۔

سلطان باہو کی زندگی پر کتنی کتنی کتابیں لکھ گئی ہیں

Sultan Bahoo ki zindagi par kitni kitni kitabain likhi gai hain

حضرت سلطان باہو کی زندگی پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کی زندگی، تعلیمات اور کلام پر مختلف مصنفین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، ان کی زندگی کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔

سلطان باہو کی زندگی پر سب سے اہم کتاب "مناقب سلطانی" ہے، جو ان کی وفات کے سات نسلوں بعد لکھی گئی تھی3۔ یہ کتاب ان کی زندگی کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، سلطان باہو کی زندگی اور تعلیمات پر کئی دیگر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر:

"آبیات باہو" - پروفیسر ڈاکٹر سلطان الطاف علی کی تصنیف، جو سلطان باہو کے تمام پنجابی اشعار کا مجموعہ ہے۔

"دیوان باہو" - سلطان باہو کے کلام کا مجموعہ، جو اردو اور انگریزی میں ترجمہ کے ساتھ دستیاب ہے۔

"کشف الاسرار" - سلطان باہو کی تحریر کردہ کتاب، جس میں روحانی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ سلطان باہو کی زندگی، تعلیمات اور کلام پر مزید کتابیں بھی موجود ہیں۔ ان کی شخصیت اور تعلیمات کی اہمیت کی وجہ سے، مختلف مصنفین اور محققین نے ان پر لکھنا جاری رکھا ہے۔

سلطان باہو کی کرامت کیا ہے

Sultan Bahoo ki karamat kya hain

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات ان کی روحانی عظمت اور اللہ کے قرب کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کی کرامات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ظاہری کرامات اور باطنی کرامات۔ ذیل میں ان کی چند مشہور کرامات کا ذکر کیا گیا ہے:

ظاہری کرامات

پتھر کو سونا بنانا
سلطان باہو کی مشہور کرامت یہ تھی کہ ان کے نظرِ کیمیا سے پتھر سونا بن جاتا تھا۔ ایک واقعے میں، ایک غریب سید نے اپنی مالی مشکلات کے حل کے لیے ان سے مدد مانگی۔ سلطان باہو نے ایک پتھر سید کو دیا، جو سونا بن گیا، اور اس سے اس کی تمام مشکلات دور ہو گئیں۔

کڑوے پانی کو میٹھا کرنا
کلالر کہار کے علاقے میں پانی کڑوا تھا۔ لوگوں نے سلطان باہو سے دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے ایک پتھر پھینکا، جس سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، جو آج بھی موجود ہے اور لوگوں کے لیے نعمت کا ذریعہ ہے۔

دیوار کا حرکت کرنا
ایک موقع پر سلطان باہو نے اپنی روحانی طاقت سے ایک درخت کو اپنی جگہ سے دس قدم دور منتقل کر دیا۔ یہ درخت "حضوری بیر" کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے پھل کو برکت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

آہو (ہرن) کی خدمت
رمضان المبارک میں، ایک ہرن روزانہ افطار اور سحری کے لیے کھانا لے کر آتا رہا۔ یہ واقعہ "آہو باہو" کے نام سے مشہور ہوا، اور اس جگہ کو آج بھی زائرین مقدس سمجھتے ہیں۔

باطنی کرامات

روحانی ترقی عطا کرنا
سلطان باہو کی سب سے بڑی روحانی کرامت یہ تھی کہ وہ ایک نظر میں کسی کو اللہ کی معرفت عطا کر دیتے تھے۔ ان کی توجہ سے لوگ روحانی درجات پر فائز ہو جاتے تھے۔

علم کا فیضان
وہ جاہل کو عالم بنا دیتے اور کسی کو بغیر کسی ظاہری تعلیم کے علمِ لدنی عطا کرتے تھے۔

اللہ کا دیدار عطا کرنا
ان کی توجہ سے لوگ اللہ کے دیدار اور قربت کا تجربہ کرتے تھے، جو عام طور پر سالوں کی عبادت و ریاضت کے بعد ممکن ہوتا ہے۔

دیگر مشہور واقعات

  • ان کی نظرِ خاص سے لوگ مادی دنیا چھوڑ کر صوفیانہ راستے پر چلنے لگتے تھے۔

  • ان کے مزار پر موجود "حضوری بیر" کا پھل بے اولاد جوڑوں اور بیماروں کے لیے شفا کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

حضرت سلطان باہو کی یہ کرامات ان کی روحانی عظمت اور اللہ تعالیٰ سے قربت کا مظہر ہیں، جو آج بھی لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

سلطان باہو کی شاعری میں کس تارہ کے تھیم ہیں

Sultan Bahoo ki shairi mein kis tarah ke theme hain

سلطان باہو کی شاعری کے اہم موضوعات

حضرت سلطان باہو کی شاعری میں درج ذیل اہم روحانی اور صوفیانہ موضوعات ملتے ہیں:

عشق حقیقی اور وحدت الوجود

ان کی شاعری میں اللہ سے حقیقی عشق اور اس کی وحدانیت کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

وہ "ہو" (اللہ کا اسمِ ذات) کی تکرار سے فکرِ توحید کو اجاگر کرتے ہیں۔

ان کے ہاں عشقِ مجازی درحقیقت عشقِ حقیقی کی طرف رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

سدا سہاگن کا تصور

سلطان باہو نے روحانی تعلق کو بیاہ کے رشتے سے تشبیہ دی ہے، جہاں سالک (طالب) کو "سدا سہاگن" (ہمیشہ کی دلہن) قرار دیا گیا ہے۔

یہ استعارہ روح کے اللہ سے ابدی وابستگی کی علامت ہے۔

فقر اور روحانی طہارت

ان کے کلام میں فقر (اللہ پر توکل) کو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔

مادی دنیا کی بے ثباتی اور قلب کی صفائی پر زور دیا گیا ہے۔

طبیعت اور کائنات کے استعارے

وحدت کے دریا، جنگل اور صحرا جیسے فطری عناصر کو روحانی تعلیمات کے لیے استعمال کیا۔

شراب اور مستی کو روحانی سرور کی علامت بنایا۔

مرشد کی اہمیت

کلام میں مرشدِ کامل کے بغیر راہِ سلوک ناممکن قرار دی گئی ہے۔

اپنے مرشد کو وہ استاد قرار دیتے ہیں جس نے انہیں "دل سے کلمہ" پڑھنا سکھایا۔

سماجی مساوات

ان کی شاعری میں امیر و غریب، مرد و زن کا امتیاز ختم کرکے سب کو اللہ کے سامنے برابر قرار دیا گیا ہے۔

ذات پات کے فرق کو رد کیا گیا ہے۔

سلطان باہو کا کلام صوفیانہ روایت کا ایک شاہکار ہے جس میں گہرے باطنی معانی سادہ پنجابی زبان میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے اشعار آج بھی روحانی تسکین اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔

سلطان باہو کی سیفلی کا حکم سروری قادری کیا ہے

Sultan Bahoo ki sifli order Sarwari Qadiri kya hai

سروری قادری سلسلہ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ممتاز صوفی سلسلہ ہے، جو روحانی تعلیمات اور معرفتِ الٰہی پر مبنی ہے۔ یہ سلسلہ قادری سلسلے کی ایک شاخ ہے، جسے سلطان باہو نے نئے انداز میں ترتیب دے کر "سروری قادری" کا نام دیا۔ اس سلسلے کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

سروری قادری کا مطلب

سروری کا مطلب "رہنما" ہے، جو حضرت محمد ﷺ کی قیادت کو ظاہر کرتا ہے۔

قادری کا مطلب "طاقتور" ہے، جو شیخ عبدالقادر جیلانی کی روحانی عظمت کی طرف اشارہ کرتا ہے.

سروری قادری اور زاہدی قادری میں فرق

زاہدی قادری: اس میں مرید کو سخت ریاضتوں اور عبادات کے ذریعے روحانی ترقی حاصل کرنی پڑتی ہے، جو کئی سالوں پر محیط ہوتی ہیں۔

سروری قادری: اس میں مرشد کامل مرید کو پہلے دن ہی اسمِ اعظم عطا کرتا ہے اور اسے روحانی ترقی کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیتا ہے، بغیر کسی سخت مشقت کے۔ اس سلسلے میں مرید کو براہِ راست حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرایا جاتا ہے.

روحانی تعلیمات

سروری قادری سلسلے میں معرفتِ ذات (اللہ کی شناخت) پر زور دیا جاتا ہے۔

اسمِ اللہ ذات کی مراقبہ اور شریعت پر عمل اس سلسلے کے بنیادی اصول ہیں۔

اس سلسلے میں ظاہری لباس یا مخصوص ظاہری علامات (جیسے عمامہ یا جبے) کی کوئی پابندی نہیں ہے.

سلسلے کی روحانی طاقت

حضرت سلطان باہو نے فرمایا کہ سروری قادری مرشد کامل اپنے مرید کو لمحوں میں وہ مقام عطا کر سکتا ہے جو خود اسے حاصل ہے۔ یہ مرید کو دنیاوی خواہشات سے آزاد کرکے صرف اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے.

سلسلے کا ارتقاء

یہ سلسلہ حضرت سلطان باہو سے شروع ہو کر مختلف روحانی شخصیات کے ذریعے آج تک جاری ہے۔ موجودہ دور میں یہ سلسلہ سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن کے زیر قیادت جاری ہے.

سروری قادری سلسلہ صوفیانہ تعلیمات کا ایک منفرد نظام پیش کرتا ہے، جو معرفتِ الٰہی اور روحانی ترقی کے لیے مشہور ہے۔


blogger counters river-insurance
river-insurance
river-insurance
river-insurance

Chat

Get guidance for spiritual Serwari Qadri way
Get guidance for spiritual Serwari Qadri way